بے رونق اور بے مزہ زندگی
میری زندگی بہت بے رونق بے مزہ اور بور ہے۔ مجھ سے کبھی کسی نے محبت نہیں کی ، اس لئے میں اپنے دل میں بھی کسی کی محبت محسوس نہیں کرتا، دل بجھا بجھا رہتا ہے،سوچتا ہوں بڑا آدمی بن گیا ہوں اور سب میری عزت کر رہے ہیں۔آج جو مجھے توجہ نہیںدیتے آنے والے کل میں ان کی پرواہ نہ کروں گا۔ (زعیم اعجاز، ملتان)
مشورہ:زندگی بے رونق ہونے کا سبب یہی ہے کہ آپ کسی سے محبت نہیں کرتے ۔ سوچوں اور خیالوں میں بڑے آدمی کا تصور حقیقی دنیا سے بہت دور کر دے گا۔آج ہی اپنے ساتھ عہد کریں کہ خیالوں کے خود ساختہ جال سے باہر آ کر حقائق کا مقابلہ کریںگے۔ بے مقصد زندگی بے رونق اور بور ہوتی ہے اس لئے عزم اور ہمت سے مقصد حیات کا تعین کرنا ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی انسان بے کار نہیں، کسی ایسے نصب العین کا تعین کرکے جو طبیعت اور مزاج کے مطابق ہو زندگی میں حرارت اور تازگی محسوس ہو گی ۔
ماضی میں جی رہا ہوں
میں نے پہلی شادی اپنی پسند پر کی لیکن ایک سال کے بعد ہی بچے کی پیدائش پر پیچیدگی کی وجہ سے بیوی اور بچہ دونوں انتقال کر گئے۔ابھی اس کا غم نہ بھولا تھا کہ گھر والوںنے میری شادی کر دی، سب ہی اس بیوی کی تعریف کرتے ہیں لیکن مجھےوہی یاد آتی ہے۔یہ اپنی خدمت کے باوجود میرے دل میں جگہ نہ بنا سکی۔ پہلی والی کی قبر پر جاتا ہوں اور روتا رہتا ہوں ، دل کی ویرانی کم نہیں ہوتی ،یہ بیوی میری محبت جیسی نہیں ہے۔( داؤدعلی، لاہور)
مشورہ: ماضی پر مستقل توجہ مرکوز کرنا ایک تکلیف دہ کیفیت ہے جبکہ ماضی میں شدید صدمہ بھی پہنچا ہو، ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتاہے، موجودہ بیوی میں برائی نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ماضی سے باہر نہیں آئیں گےنیا سورج جو خوشیاں لے کر آرہا ہے ، اس سے محروم رہیں گے۔ صدمے پر صبر کرنا سب سے اچھا ہےکیونکہ اس طرح دل و دماغ کی کیفیت معمول کے مطابق ہوتی ہے اور یہ طرز فکر کو مثبت بناتا ہے۔
دنیاوی عروج ملا لیکن روح زوال پذیر
میں لوگوں کی نگاہ میں خوش قسمت ہوں ۔ اعلی تعلیم اور اچھی ملازمت بھی ہے۔ دیکھنے میں صحت اچھی نظر آتی ہے۔ بظاہر پریشانی کی کوئی وجہ نہیں لیکن پریشان رہتا ہوں ۔ میرا خواب تھا ملک سے باہر چلا جاؤں ، ترقی کروں سو وہ پورا ہوا لیکن میں خوش نہیں ، اپنے ملک کی خبریں نہیں سنتا کیونکہ پھر پریشانی شدید ہو جاتی ہے۔ گھر والوں سے فون پر مختصر بات کر کے کام میں لگ جاتا ہوں۔ (محمد یحییٰ، آسٹریلیا )
مشورہ:ماہرین کے مطابق جسمانی امراض کی عدم موجودگی کسی شخص کو صحت مندثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے اور کس کی زندگی پریشان کن ہے اور تکلیف دہ ہے۔ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اگر آپ اپنے دل میں خوشی محسوس نہیں کر رہے تو اپنی ذہنی زندگی کا محاسبہ کیجئے اور دیکھئے پریشان ہونا بچپن کی عادت تو نہیں یا پھر اپنے ملک کی خبریں تکلیف دہ ہیں کہ آپ وہاں ملنے جانا چاہتے ہیں اور کسی طرح کا خوف روک رہا ہے، دیکھیں کہ اپنے رب کے ساتھ کیسا تعلق ہے ؟ اگر یہ تعلق مضبوط ہوتا ہے تو زندگی میں قلب اور روح کی آسودگی محسوس ہوتی ہے۔
بیٹے کی تربیت کیسے کروں؟
میرا بیٹا آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ ایک دن میں دفتر سے جلدی گھر آگیا ، میںنے دیکھا کہ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ کمپیوٹر پر کچھ دیکھ رہا ہے۔ اس کا دوست مجھے دیکھ کر چلا گیا۔ ان دونوں کے اٹھنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ غلط قسم کی چیزیں دیکھ رہے تھے۔ مجھے اس قدر شدید دھچکا پہنچا، کسی سے یہ بات کہی بھی نہیں جا سکتی ، یہاں تک کہ بچے کو بھی اس حوالے سے کیا کہوں ، بات کہاںسے شروع کی جائے ؟ اتنی بڑی برائی کا ذکر بھی کرنے کی ہمت نہیں لیکن اصلاح کی ضرورت شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔(ح، ا)
مشورہ: اس قسم کی برائیوں کو روکنے کےلئے فوری طور پر آپ کی غیر موجود گی میں بچوں کو انٹر نیٹ استعمال کرنے پر پابندی عائد ہونی ضروری ہے۔ ان باتوں کی آگہی جو کم عمر بچوں کے جذبات کو نیا رخ دے دیں اور وہ بے راہ روی کی طرف بڑھنے لگیں غلط ہے ۔ ازدواجی زندگی کی معلومات عمر او روقت کے تقاضوں کے مطابق ہونی ہی بہتر ہے تاکہ بچوں میں فطری معصومیت برقرا ررہے ۔ والدین سے بڑھ کر اس معاملے میں بچوں کی رہنمائی کوئی اور نہیں کر سکتا، ابھی وقت ہے اپنے بچے کی اخلاقی اور دینی تربیت کریں ، اس سے دوستی رکھیں تاکہ شخصیت نفسیاتی طور پر مستحکم ہو ، دوران گفتگو اس کو اچھائی برائی گناہ ثواب کی تعلیم بھی دیتے رہیں۔ جو بچے والدین سے قریب ہوتے ہیں وہ دوستوں کے ساتھ چھپ چھپ کر برائیوں میں شریک نہیں ہوتے کیونکہ ان کو نیکی اور برائی میں تمیز کرنی آتی ہے ۔ بچے کو فارغ اوقات میں کھیلوں میں حصہ لینے کا موقع دیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں